Saturday 8 December 2012

بابری مسجد میں مورتی خود رکھی گئی تھی۔بھارت اسلام دشمنی پر مبنی کا مکروہ چہرہ

’بابری مسجد میں مورتی خود رکھی گئی تھی‘

بابری مسجد پر لکھی جانے والی ایک نئی کتاب میں دعویٰٰ کیا گیا ہے کہ انیس سو اننچاس میں جب ’معجزاتی‘ طور پر مسجد کے اندر بھگوان رام کی مورتی ’نمودار‘ ہوئی تو اس میں انہیں لوگوں کا ہاتھ تھا جو مہاتما گاندھی کے قتل کے سلسلے میں بھی شک کے دائرے میں آئے تھے۔

کتاب کے مصنف کرشنا جھا اور دھیریندر جھا ہیں، جن کا دعویٰ ہے کہ تفصیلی تحقیق کے بعد وہ یہ معلوم کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں کہ انیس سو اننچاس میں بائیس اور تئیس دسمبر کی درمیانی شب ایودھیا میں مسجد کے اندر مورتی رکھنے والے لوگ کون تھے اور اس پوری کارروائی کی سازش کس نے تیار کی تھی۔

مصنفین نے اس رات کی منظر کشی کی ہے جب بابری مسجد کچھ ہی دیر میں مندر میں تبدیل کردی گئی تھی


کتاب ابھی بازار میں نہیں آئی ہے لیکن اخبار ٹائمز آف انڈیا نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ مصنفین نے عینی شاہدین اور پرانے ریکارڈز کا مطالعہ کرنے کے بعد اس رات کی منظر کشی کی ہے جب بابری مسجد کچھ ہی دیر میں مندر میں تبدیل کردی گئی تھی۔
کتاب میں کہا گیا ہے کہ اس سازش میں ضلعے کے اعلیٰ ترین سرکاری افسر کے کے نائر بھی شامل تھے۔ اس کا مقصد قوم پرست تنظیم ہندو مہاسبھا کو ایک بڑی قومی سیاسی طاقت میں بدلنا تھا۔
اس رات کے مرکزی کردار بابا ابھیرام داس تھے جن کا تعلق نروانی اکھاڑے سے تھا۔ کتاب کے مطابق مورتی انہوں نے ہی رکھی تھی۔ ان کا انتقال انیس سو اکیاسی میں ہوا اور اس وقت وہ رام جنم بھومی کو آزاد کرانے والے بابا کے نام سے مشہور تھے۔
کتاب میں کہا گیا ہے کہ ان کے دو رشتے کے بھائی اندو شیکھر جھا اور یوگل کشور جھا بھی اس رات مسجد میں موجود تھے۔
مصنفین نے اپنی کتاب ’ایودھیا، دی ڈارک نائٹ‘ (ہارپر کولنز) میں لکھا ہے کہ اس سازش میں پہلے بابا رام چندر داس پرم ہنس بھی شامل تھے لیکن اس رات وہ اچانک ’غائب‘ ہوگئے۔ بعد میں ان کا شمار اس تحریک کے سرکردہ رہنماؤں میں کیا جاتا تھا۔
کتاب کے مطابق ابھیرام داس اور ان کے ساتھیوں نے موذن محمد اسمٰعیل کو مار پیٹ کر بھگا دیا تھا اور پھر رات بھر مسجد میں ہی بیٹھے رہے۔ اور اس وقت ہند مہاسبھا کی فیض آباد یونٹ کے سربراہ گوپال سنگھ وشارد معـجزے کا اعلان کرنے کے لیے ایک مقامی پریس میں پوسٹر چھپوا رہے تھے۔

جب صبح ہوئی تو مسجد سے ’رام لیلا‘ کے نعرے بلند کیے گئے۔ کتاب کا دعویٰ ہے کہ ضلع مجسٹریٹ نائر چار بجے ہی ایودھیا پہنچ گئے تھے لیکن انہوں نے نو بجے تک لکھنؤ اطلاع نہیں کی۔ اس دوران ہندو بھکت مسجد پر پوری طرح قبضہ کر چکے تھے۔
کتاب میں یہ دعویٰ بھی شامل ہے کہ اس سازش میں ہندو مہاسبھا کے اترپردیش کے صدر مہنت دگ وجے ناتھ نے کلیدی کردار ادا کیا تھا جنہیں اگلے ہی دن تنظیم کا قومی جنرل سیکرٹری بنا دیا گیا۔
جب جنوری انیس سو اڑتالیس میں مہاتما گاندھی کو قتل کیا گیا تھا تو مہنت دگ وجے ناتھ بھی ملزمان کی فہرست میں شامل تھے لیکن بعد میں انہیں رہا کردیا گیا تھا۔
مسجد میں مورتیاں نصب کیے جانے کے باوجود ہندو مہاسبھا قوم پرست تحریک کو مضبوط کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ یہ کام اسّی کے عشرے میں لال کرشن اڈوانی نے کیا اور اسی تحریک کے نتیجے میں بابری مسجد انجام کار چھ دسمبر انیس سو بانوے کو مسمار کردی گئی۔

حوالہ ۔۔بی۔بی۔سی

No comments:

Post a Comment

please use decent language and content to post your comments thanks